عالیہ تبسم
یونین جیک انگلینڈ ،آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کوظاہر کرتا ہے لیکن اس کثیرالثقافتی ملک کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ برطانیہ کا وزیراعظم کوئی ایشیائی شخص ہو ،انہوں نے کہا کہ تعصبات کی وجہ سے اقلیتوں کی صلاحیتوں سے اُس طرح فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا جس طرح اٹھانا چاہیے ۔ڈیوڈ کیمرون کے بیان کو پاکستانی کمیونٹی میں بہت پذیرائی ملی ۔پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدانوں نے اس پربغلیں بجانا شروع کر دی ہیں اوروزیراعظم کی سوچ کا خیر مقدم کیا ہے ۔دوسری طرف دیکھیں سبز اور سفید ہلالی پرچم ۔سبز میرے ملک کے مسلمان اور سفید اقلیت ۔جن کے تحفظ کی قسم کھا کر ہم نے ملک حاصل کیا اور پھر جب آئین تشکیل پایا تو ان کے تحفظ اوربرابری کو قانونی اور آئینی حیثیت دے دی گئی۔
اس کے باوجود آئینی کتاب کھول کر یا علامتی جھنڈے کولہرا کر دیکھیں اور پھردوسری طرف زمینی حقائق کو دیکھیں تو منافقت ہی منافقت ۔کیسا تحفظ ،کون سی برابری۔ پاکستان کے سب سے مثالی اور بڑے صوبے میں یکے بعد دیگرے دو ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ انسانیت شرما جائے ۔پہلے واقعے میں قصور میں ایک مسیحی جوڑے پر توہین رسالت کاالزام لگا کر اسے بھٹے میں جلا دیا گیا اوردوسرے واقعہ میں ایک اے ایس آئی نے گجرات میں ایک شخص کوکلہاڑی کے وار کر کے قتل کر دیا ۔اے ایس آئی نے بھی اس شخص پر گستاخانہ بیان دینے پر حملہ کیا ۔اب کوٹ رادھاکشن ضلع قصور کے جوڑے نے توہین رسالت کاارتکاب کیایانہیں،اس حوالے سے مختلف ذرائع مختلف معلومات دیتے نظر آتے ہیں ۔یہ بھی کہاجا رہاہے کہ بٹھے کے مالک نے ادھار دی گئی رقم کا تقاضا کیا اور رقم نہ ملنے پر مار پیٹ کی اور پھر اس جوڑے پر توہین رسالت کاالزام لگا کر مجمع اکٹھا کیا اورانہیں آگ کی نذر کر دیا ۔اب قانون جس کی ذمہ داری شہریوں کی جان کو محفوظ بنانا ہوتا ہے گجرات والے واقعہ میں اسی قانون کے رکھوالے نے طیش میںآ کر فیصلہ سنا دیا جبکہ قصور والے واقعہ میں بتایا گیا ہے کہ قانون کے رکھوالے تماشائی بنے رہے اور یہ سب کچھ توہین رسالت کے نام پر کیاگیا ۔
توہین رسالت کے اس قانون کو پاکستان میں جس طرح سے استعمال کیاجا رہا ہے اس پر ہم نے دنیا میں اپنا چہرہ جو پیش کرنا تھا وہ کیا ،لیکن ہم نے اسلام کے چہرے کوبھی انتہائی مسخ اوروحشت ذدہ بنا کر دنیاکودکھایا ہے ۔اسلامی تصورات کو نقصان پہنچانے میں جتنانمایاں حصہ ہم پاکستانیوں نے ڈالا ہے شاید ہی دنیا میں کسی اسلام دشمن نے بھی اتنابڑا کردار ادا کیا ہو ۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے ضلع قصور والے واقعہ کی کسی نہ کسی طرح مذمت کی جا رہی ہے ،لیکن اب حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ صرف مذمتوں ،کمیشنوں اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے وعدوں سے کام نہیں چلے گا اب عملی اقدامات کرنا ہوں گے ۔توہین رسالت کے قانون میں خرابی نہیں ہے ،یہ وہ قانون ہے جو لوگوں کو پابند کرتا ہے کہ چاہے آپ کسی بھی مذہب سے ہوں ،نبیوں اوررسولوں کا مقام اوراحترام ملحوظ رکھا جائے تاکہ ان کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے دائرہ کار میں رہ کر جو اپنے کسی بھی مذہب پر عمل پیراہے اس کے مذہب کا احترام بھی ہماری ذمہ داری میں شامل ہے ۔جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ ہم نے توہین رسالت کے قانون کا استعمال غلط کیا ہے اور اس حد تک بے جا استعمال نے حالات یہ پیدا کر دئیے ہیں کہ اگرکسی کو پاگل پن کی سند درکار ہوتو وہ نبی پاک ﷺ کے حوالے سے گستاخی کرتا ہے ۔ اگر حالات یوں ہی چلتے رہے اور مجمعوں کو اجازت دی جاتی رہی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیں اور انصاف کرتے پھریں توپھر حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے اورجب انصاف کا پلڑا ایک طبقہ کی طرف جھک جائے تو معاشرے میں عدم توازن فطری ہے ۔توہین رسالت کے قانون کے موجود رہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اس میں ترمیم وقت کی اہم ضرورت ہے ۔توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے کو سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن جب الزام لگانے والا الزام ثابت نہ کرسکے یا یہ ثابت ہو کہ الزام جھوٹا تھا تو توہین رسالت کے لیے مقرر کردہ سزا الزام تراش کو ملنی چاہیے کہ اس نے ایک معصوم شخص پر تہمت لگائی دوسرے وہ ایک طرح سے نبی پاک ﷺ کو یا پھر اسلام کو اپنے جھوٹ میں شامل کرکے خودتوہین رسالت کا مرتکب ہو ا ہے ،لیکن روش یہ ہے کہ الزام تراشی کرنے والا اگر جھوٹا ثابت بھی ہو جائے ،تو اس کی باز پرس نہیں ہوتی بلکہ اکثر موقع پر سزا دینے والا ایک بڑے طبقے کا ہیرو بن جاتا ہے ۔
ایک قومی روزنامے کے بیک پیج پر وزیر اعلیٰ پنجاب قتل کیے جانے والے جوڑے کے گھر پہنچتے ہیں ۔بایاں ہاتھ ایک عورت کے سر پر رکھ کر شاید تسلی دے رہے ہیں لیکن دائیں ہاتھ سے ایک بچہ پکڑا ہوا ہے جو اس مقتول مسیحی جوڑے کا غالباً بیٹا ہے ۔اُس معصوم بچے نے گرنے سے بچنے کے لیے وزیراعلیٰ کاگریبان پکڑا ہوا ہے اور رو رہا ہے ۔لیکن نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ جیسے گربیان پکڑ کر وہ کہہ رہا ہو کہ اب بس کر دو خادم اعلیٰ ، تمہاری ایک جنبش سے سی پی او اور ڈی پی او تو تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن تمہارے پچاس لاکھ روپے اور دس ایکڑ اراضی میری زندگی بھر کی یتیمی اورمحرومی دور نہیں کر سکتے ۔