یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی کلاس بہت عرصے سے موجود ہے جن کے ہاں سور خوری اور شراب نوشی بڑے رغبت سے ہوتی ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جوہمارے مذہب سے تو دور کی بات ہماری تہذیب سے بھی میل نہیں کھاتا۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں قیام پاکستان سے پہلے کے ایسے طبقے بھی موجود ہیں جو اپنے ماحول سے خوش نہیں ہیں اور اپنی اپنی حیثیت میں مزاحمت کر رہے ہیں ۔ان میں بڑے اور معتبر نام بھی شامل ہیں ۔ان میں دو بڑے طبقات لبرل اور اسلامی نظام کے حامی لوگ ہیں ۔نیتیں دونوں کی اچھی تھیں لیکن بدقسمتی سے بدنما داغ اجلی چادر پر زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے۔ان طبقات کو بھی غلط لوگوں نے ہائی جیک کیا اور روشن خیال اور ترقی پسند لوگ فحش اور بدکردار کہلانے لگے اور اسلامی نظام اور انصاف کی بات کرنے والے بنیاد پرست اور قدامت پسند کہلانے لگے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے دونوں نظاموں کی خوبیوں کے بجائے خامیاں چن کر اپنے معاشرے میں پھیلا دیں ۔
کچھ دنوں سے ہائی کورٹ میں توہین رسالت کے حوالے سے خوب باتیں ہو رہی ہیں ۔توہین رسالت ﷺ کے حوالے سے سلمان تاثیر کا واقعہ بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔سابق گورنر پنجاب کی ذاتی زندگی جیسی بھی تھی اور وہ کتنے سیکولر اورلادینی تھے یہ معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے سپر د ہے لیکن سلمان تاثیر کا شاید قصور یہ تھا کہ انہوں نے الفاظ کے چناؤ میں غلطی کی۔ توہین رسالت قانون کو ’’کالا قانون ‘‘کا نام دے کر انہوں نے شاید بہت سے لوگوں کی دل آزاری کی ہو گی لیکن ان کی موت پر خوشیاں منانے والوں اور ممتاز قادری کو ہیرو بنانے والوں کی مذ ہبی سمجھ بوجھ اتنی کم تھی کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ نبی پاک ﷺنے فتح مکہ کے موقع پر اپنے بدترین دشمن کے گھر کو دارالامان قرار دے دیا تھا ،قتل کا حکم نہیں دیاتھا ۔شاید اگر ہمارا قانون اپنا کام کر رہا ہوتا تو غالباً ممتاز قادری کو ’’ثواب ‘‘کمانے کا موقع نہ ملتا ۔
ہائی کورٹ کے حکم پر پی ٹی اے نے جو پیجز بلاک کیے ہیں وہ اچھا اقدام ہے لیکن معذرت کے ساتھ سوشل میڈیاپر ان پیجز کے علاوہ بھی توہین رسالت ہو رہی ہے۔بہت سی ایسی ’’اچھی ‘‘ باتیں بغیر تصدیق کے نبی پاک ﷺکی احادیث کے نام پر شیئر ہور ہی ہیں ۔بہت سارے دوستی اور محبت کے اقوال حضرت علیؓ کے نام سے شیئر کیے جا رہے ہیں ۔ فون میسجز پر بھی یہی سلسلہ عام ہے۔ایک مثال پڑھ لیجیے ۔کچھ سال پہلے کی بات ہے ایک صاحب ،جو ہر لحاظ سے مذہبی دکھتے ہیں،خبریں بھیجا کرتے تھے ۔انہوں نے ایک بار ایس ایم ایس کیا ۔قرآن شریف کی سورہ اور آیت نمبرکا حوالہ دے کر ایک آیت کا ترجمہ شیئر کیا اور آگے شیئر کرکے نیکی کمانے کی درخواست کی ۔آیت کا ترجمہ تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، اے میرے بندے جب تو وضو کرتا ہے تو تیرے سے گرنے والا ایک ایک قطرہ کے برابر گناہ جھڑجاتے ہیں ۔اپنی کم علمی کے باوجود مجھے ان کی ’’آیت ‘‘ مشکوک گزری ،تو میں نے قرآن پاک سے ترجمہ چیک کیا تو وہ آیت بالکل مختلف موضوع پرتھی ۔اب ظاہر ہے ان صاحب کو کسی نے یہ ایس ایم ایس شیئر کیا اور انہوں نے آنکھیں بند کر کے نیکی کمانے کے لیے مجھے بھیج دیا ۔اسی طرح فیس بک پر مستند احادیث کے حوالے دے کر بہت کچھ شیئر ہوتا ہے جنہیں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پڑھتے ،لائک کرتے اور شیئر کرتے ہیں ۔
اس وقت جسٹس شوکت صدیقی صاحب کا بہت چرچا ہے۔سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے حوالے سے وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے ۔اللہ کرے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوں ،لیکن اس حوالے سے جومیڈیا کا کردار سامنے آرہا ہے اس کی توقع نہیں تھی ۔بعض قومی اخبارات میں عدالتی کاروائی کی خبروں کو اس رنگ میں پیش کیاجا رہا ہے کہ توہین رسالت کے بجائے جسٹس شوکت صدیقی مرکزی کردار بن گئے ہیں ۔اس وقت جسٹس صاحب کچھ الزامات کی زد میں ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ الزامات غلط ہوں اور ان الزامات کے حوالے سے جس انداز میں وہ کیس اوپن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی قابل ستائش ہے لیکن چند روز سے جو ہمارے قلمکاروں کے قلم میں زور پیدا ہو گیاہے وہ تشویشناک ہے ۔شوکت صدیقی کا ٹرائل اور توہین رسالت کے معاملات کوایک ہی زاویے سے دیکھنا اورلکھنا غلط ہے۔جسٹس صاحب کے حوالے سے رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے نبی پاک ﷺکی ذات کے علاوہ اور بہت سے ایشوز ہیں جنہیں یہ صحافی استعمال کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں جب کوئی معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو اس پر قانون سازی اور عملدرآمد ناممکن ہو جاتاہے۔اس وقت توہین رسالت کا ایشو تازہ ہے ۔ جہاں توہین رسالت قانون کا اطلاق ضروری ہے ، اس قانون کا صحیح استعمال اس سے زیادہ ضروری ہے۔جس طرح عام کیسز میں ہوتا ہے کہ الزام لگانے والا الزام ثابت کرتا ہے۔توہین رسالت قانون ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے اگر الزام لگانے والا جھوٹا ثابت ہوجائے تو اس پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہونا چاہیے ۔نبی پاک ﷺکی ناموس پر جھوٹ باندھنا اور کسی کو اپنی ذاتی انتقام کی بھینٹ چڑھانا ایک مکروہ فعل ہے اور اس کے خلاف بھی کاروائی کی جانی چاہیے ۔
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا ہے اب دوقومی نظریے کا مطلب ’’بنیاد پرست ‘‘ریاست نہیں ہے۔اسلام کے نام پر بننے کے باوجود یہ صرف مسلمانوں کا ملک نہیں ہے۔ہمارے قومی جھنڈے میں سفیدی ،غیر مسلموں کے استحصال کی نشانی نہیں ہے ان کے حقوق اور ان کی نمائندگی کی علامت ہے۔ہمارا دل برما اورفلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کے لیے تو خون کے آنسو روتا ہے اوریہ اچھی بات ہے لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہم اپنے غلیظ ترین کام غیر مسلموں سے کرواتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے پرمٹ پر شراب بھی پی جاتے ہیں اور جب دل کرتا ہے تو توہین رسالت کا الزام بھی لگا دیتے ہیں جھوٹے ثابت ہو بھی جائیں تو عزت سے بری ہو جاتے ہیں ۔نبی پاک ﷺ کی گستاخی کرنے والے کو سخت سزا ضرو ر ملنی چاہیے لیکن جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی اسی شکنجے میں لانا ہوگا ۔
کچھ دنوں سے ہائی کورٹ میں توہین رسالت کے حوالے سے خوب باتیں ہو رہی ہیں ۔توہین رسالت ﷺ کے حوالے سے سلمان تاثیر کا واقعہ بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔سابق گورنر پنجاب کی ذاتی زندگی جیسی بھی تھی اور وہ کتنے سیکولر اورلادینی تھے یہ معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے سپر د ہے لیکن سلمان تاثیر کا شاید قصور یہ تھا کہ انہوں نے الفاظ کے چناؤ میں غلطی کی۔ توہین رسالت قانون کو ’’کالا قانون ‘‘کا نام دے کر انہوں نے شاید بہت سے لوگوں کی دل آزاری کی ہو گی لیکن ان کی موت پر خوشیاں منانے والوں اور ممتاز قادری کو ہیرو بنانے والوں کی مذ ہبی سمجھ بوجھ اتنی کم تھی کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ نبی پاک ﷺنے فتح مکہ کے موقع پر اپنے بدترین دشمن کے گھر کو دارالامان قرار دے دیا تھا ،قتل کا حکم نہیں دیاتھا ۔شاید اگر ہمارا قانون اپنا کام کر رہا ہوتا تو غالباً ممتاز قادری کو ’’ثواب ‘‘کمانے کا موقع نہ ملتا ۔
ہائی کورٹ کے حکم پر پی ٹی اے نے جو پیجز بلاک کیے ہیں وہ اچھا اقدام ہے لیکن معذرت کے ساتھ سوشل میڈیاپر ان پیجز کے علاوہ بھی توہین رسالت ہو رہی ہے۔بہت سی ایسی ’’اچھی ‘‘ باتیں بغیر تصدیق کے نبی پاک ﷺکی احادیث کے نام پر شیئر ہور ہی ہیں ۔بہت سارے دوستی اور محبت کے اقوال حضرت علیؓ کے نام سے شیئر کیے جا رہے ہیں ۔ فون میسجز پر بھی یہی سلسلہ عام ہے۔ایک مثال پڑھ لیجیے ۔کچھ سال پہلے کی بات ہے ایک صاحب ،جو ہر لحاظ سے مذہبی دکھتے ہیں،خبریں بھیجا کرتے تھے ۔انہوں نے ایک بار ایس ایم ایس کیا ۔قرآن شریف کی سورہ اور آیت نمبرکا حوالہ دے کر ایک آیت کا ترجمہ شیئر کیا اور آگے شیئر کرکے نیکی کمانے کی درخواست کی ۔آیت کا ترجمہ تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، اے میرے بندے جب تو وضو کرتا ہے تو تیرے سے گرنے والا ایک ایک قطرہ کے برابر گناہ جھڑجاتے ہیں ۔اپنی کم علمی کے باوجود مجھے ان کی ’’آیت ‘‘ مشکوک گزری ،تو میں نے قرآن پاک سے ترجمہ چیک کیا تو وہ آیت بالکل مختلف موضوع پرتھی ۔اب ظاہر ہے ان صاحب کو کسی نے یہ ایس ایم ایس شیئر کیا اور انہوں نے آنکھیں بند کر کے نیکی کمانے کے لیے مجھے بھیج دیا ۔اسی طرح فیس بک پر مستند احادیث کے حوالے دے کر بہت کچھ شیئر ہوتا ہے جنہیں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پڑھتے ،لائک کرتے اور شیئر کرتے ہیں ۔
اس وقت جسٹس شوکت صدیقی صاحب کا بہت چرچا ہے۔سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے حوالے سے وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے ۔اللہ کرے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوں ،لیکن اس حوالے سے جومیڈیا کا کردار سامنے آرہا ہے اس کی توقع نہیں تھی ۔بعض قومی اخبارات میں عدالتی کاروائی کی خبروں کو اس رنگ میں پیش کیاجا رہا ہے کہ توہین رسالت کے بجائے جسٹس شوکت صدیقی مرکزی کردار بن گئے ہیں ۔اس وقت جسٹس صاحب کچھ الزامات کی زد میں ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ الزامات غلط ہوں اور ان الزامات کے حوالے سے جس انداز میں وہ کیس اوپن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی قابل ستائش ہے لیکن چند روز سے جو ہمارے قلمکاروں کے قلم میں زور پیدا ہو گیاہے وہ تشویشناک ہے ۔شوکت صدیقی کا ٹرائل اور توہین رسالت کے معاملات کوایک ہی زاویے سے دیکھنا اورلکھنا غلط ہے۔جسٹس صاحب کے حوالے سے رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے نبی پاک ﷺکی ذات کے علاوہ اور بہت سے ایشوز ہیں جنہیں یہ صحافی استعمال کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں جب کوئی معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو اس پر قانون سازی اور عملدرآمد ناممکن ہو جاتاہے۔اس وقت توہین رسالت کا ایشو تازہ ہے ۔ جہاں توہین رسالت قانون کا اطلاق ضروری ہے ، اس قانون کا صحیح استعمال اس سے زیادہ ضروری ہے۔جس طرح عام کیسز میں ہوتا ہے کہ الزام لگانے والا الزام ثابت کرتا ہے۔توہین رسالت قانون ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے اگر الزام لگانے والا جھوٹا ثابت ہوجائے تو اس پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہونا چاہیے ۔نبی پاک ﷺکی ناموس پر جھوٹ باندھنا اور کسی کو اپنی ذاتی انتقام کی بھینٹ چڑھانا ایک مکروہ فعل ہے اور اس کے خلاف بھی کاروائی کی جانی چاہیے ۔
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا ہے اب دوقومی نظریے کا مطلب ’’بنیاد پرست ‘‘ریاست نہیں ہے۔اسلام کے نام پر بننے کے باوجود یہ صرف مسلمانوں کا ملک نہیں ہے۔ہمارے قومی جھنڈے میں سفیدی ،غیر مسلموں کے استحصال کی نشانی نہیں ہے ان کے حقوق اور ان کی نمائندگی کی علامت ہے۔ہمارا دل برما اورفلسطین کے مسلمانوں پر مظالم کے لیے تو خون کے آنسو روتا ہے اوریہ اچھی بات ہے لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہم اپنے غلیظ ترین کام غیر مسلموں سے کرواتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے پرمٹ پر شراب بھی پی جاتے ہیں اور جب دل کرتا ہے تو توہین رسالت کا الزام بھی لگا دیتے ہیں جھوٹے ثابت ہو بھی جائیں تو عزت سے بری ہو جاتے ہیں ۔نبی پاک ﷺ کی گستاخی کرنے والے کو سخت سزا ضرو ر ملنی چاہیے لیکن جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی اسی شکنجے میں لانا ہوگا ۔