More Articles

Thursday, 30 October 2014

Overcrowded prisons worsening the drug problems

Alia Tabassum

October 27, 2014

Nineteen percent of drug users have used heroin first time in prison. Forest Bank ranked highest with 123 positive opiate tests in 2013.
Last year, in the prisons of England and Wales 1328 prisoners showed positive in an opiate test with highest numbers in Forest Bank prison.
The highest number of prisoners using Heroin found in Peterborough prison, making the total number of prisoners used Heroin in country's all prisons 203.
93 prisoners using needle related drugs found in Kirkham prison, with 192 cases in all prisons.
The Prison Reform Trust  says, 19 percent of prisoners who had ever used Heroin claimed using it the first time in a prison. According to data compiled  in the end of March this year,  77 prisons out of 119 were over crowded. Forest bank, Birmingham, Doncaster and Altcourse have high rates of overcrowding and these are on the list of those 72 prisons with positive opiate tests.

Prisoners found with drugs or prohibited items can expect to have days added to their custody, being transferred to a different prison and losing privileges.

Monday, 13 October 2014

صحافت کے بابے اور صحافتی اقدار



پاکستان میں صحافت کی تاریخ اور آزادی صحافت کا جب بھی ذکرآتا ہے تو ضیاء الحق کے دور میں پی ایف یوجے کی قربانیاں یاد کی جاتی ہیں۔ناصر زیدی، اقبال جعفری ،خاور نعیم اور مسعود اللہ خان کے حوالے دئیے جاتے ہیں جنہوں نے اس وقت صحافت کی آزادی کا نعرہ لگایا جب زبان کھینچنے اور گلا گھونٹنے کو قانونی حیثیت حاصل تھی۔ سلیم شہزاد ،ولی بابر ،راجہ اسد حمید ،عامر وکیل، ارشاد مستوئی اور ان جیسے درجنوں صحافیوں نے قربانیو ں کی ایک تاریخ رقم کی ہے یہ وہ صحافی ہیں جن کی زندگیاں اس شعبے کی نذر ہو گئیں۔پھر نیوز روم سے لے کر رپورٹنگ روم تک اس شعبے کے وہ گمنام ہیرو بھی ہیں جنہیں ان کی تنخواہ وقت پر ملے یا نہ ملے لیکن جب صحافت اور آزادی اظہار کو خطرہ ہوتا ہے تویہ سب سے پہلے اس کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں ۔ 

پاکستان 1947ء میںآزاد ہوا لیکن صحافت آزادنہ ہوئی اوروقتاً فوقوقتاً صحافت پر قدغن لگتی رہی ہیں،وقت گزرتا رہا ،99ء میں آنے والی فوجی سرکار نے درجنوں ٹی وی چینلز کے اجازت نامے جاری کر دئیے توبونچھال آگیا ،جس کے بعد آزادی اظہار کا پلیٹ فارم وسیع توہوا لیکن فوج کا تربیت یافتہ سیاستدان تنقید ایک حد تک ہی برداشت کر سکتا ہے ،پرویز مشرف نے کئی چینلز اورپروگرام بند کرا دئیے اورآزادی صحافت کے لیے پھر سے ایک تحریک شروع ہوئی۔پابندی کا خاص نشانہ تو بڑے بڑے صحافی اوراینکرز تھے لیکن اس احتجاجی تحریک میں چھوٹے اداروں کے چھوٹے صحافیوں اورکارکنوں نے ہی روح پھونکی تھی جنہوں نے احتجاج ریکارڈکرا کے بند کیے گئے چینلز اور پروگرامز بحال کرائے ۔ پھر جب وکلاء تحریک چلی اورمشرف حکومت کمزورہو گئی اوروہ وقت آیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد مشرف کو رخصت ہونا پڑا ،اس وقت میڈیا میںیہ زعم پیدا ہو گیا کہ وہ جب چاہے حکومتیں بنا دے اور گرا دے ۔یہ رویہ نہ صرف صحافتی اداروں کو بلکہ ’’بڑے صحافیوں ‘‘کوبھی ان کی ذمہ داریوں سے بہت دور لے گیا ۔اب یہ بڑے صحافی اپنی ’’پیشہ ورانہ ذمہ داریاں‘‘ اتنی تندہی سے سرانجام دے رہے ہیں کہ اس شعبے کا کارکن بحیثیت صحافی اپنا تعارف کراتے ہوئے ہچکچاتا ہے کیونکہ آزادی اظہار اورآزادی صحافت کاحق جو ان کارکنوں نے قربانیوں کے بعد حاصل کیا اس پر کئی دہائیوں سے صفحے کالے کرنے والے بابوں نے پانی پھیر دیا ہے ۔
یقیناًیہ بات درست ہے کہ عمران خان ایک بڑا کراؤڈ اکٹھاکرنے میں بہت کامیاب رہے ہیں اور جولوگ انہیں سنجیدہ نہیں لیتے تھے انہیں اپنی غلطی کااحساس ہونا شروع ہو گیا ہے ۔لیکن ایک صحافی جس کاپیشہ ہی غیر جانبداری ہے اس کاکیا کا م ہے کہ وہ عمران خان یا طاہرالقادری کے کندھے سے کندھا ملا کر نہ صرف کھڑاہو بلکہ ہاتھ ہلا ہلا کر کارکنوں کو رسپانس بھی دے اور اگلے دن زمین آسمان ایک کر دیتی تحریر، اپنے لاکھوں پڑھنے والوں کوپیش کر دے ۔چینلز پر بیٹھے اینکرز کی صحافت کا معیار خیر سے یہ ہے کہ دوران پروگرام صرف نعرے بازی کرنے کی کسر باقی رہ گئی ہے ۔حالات دوسری طرف بھی انتہا پر ہیں ،شاہی لکھاری بادشاہ سلامت کے قصیدے لکھنے میں مصروف ہیں حیرت ہوتی ہے کہ ان کے قلم کا زور یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ بادشاہ سلامت نے ملک کے طول وعرض میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں اور اب اگر خدا نخواستہ تختہ وختہ الٹ گیا تو اس بار قیامت بھی آ سکتی ہے ۔یہ دو انتہائی رویے اب مل کر صحافت بن چکے ہیں، وہ لوگ جنہوں نے صحافت کے لیے اپنی زندگی کے قیمتی سال دئیے ہیں انہیں احساس ہونا چاہیے کہ ان کے رویوں کی وجہ سے حالات اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ اب سے پہلے پاکستانی صحافت اور صحافیوں کو اتنی غیر سنجیدگی سے کبھی نہیں لیا گیا ۔ان کے رویوں نے عوامی سطح پر یہ باور کرایا ہے کہ صحافی یا تو عمران خان کا حمایتی ہوتا ہے یا نواز شریف کا۔اس رویے نے موجودہ سیاسی حالات پر غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے والے کے لیے سپیس انتہائی کم کر دی گئی ہے۔کسی پروگرام میں ایک صحافی غالباً نصرت جاوید ،جو کہ کسی دکاندار کے اس جملے کو دہرا کر تمللا رہے تھے کہ انہیں دکاندار نے کہا کہ عمران خان آپ صحافیوں کوخوب ایکسپوز کررہا ہے ،کسی بھی صحافی کا،خاص کرجب وہ غیر جانبدار ہو اس پر سیخ پا ہونا بنتا ہے اس دکاندار کا مطلب جو کچھ بھی تھا لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کی بات سو فیصد درست ہے،سونامی کے ڈی چوک میں پڑاؤ نے بہت سے چہرے بے نقاب کر دئیے ہیں ۔دھرنوں کے طفیل ہی ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ہمارے صحافتی جد امجد کے نزدیک صحافت کے معیار کیا ہیں ،اوریہ کہ دو تین دہائیوں تک صفحے کالے کرتے رہنے سے صحافت کا حق ادانہیں ہوتا ۔

روزانہ ٹی وی دیکھتے ہوئے یا اخبار پڑھتے ہوئے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوتا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال غلط شعل میں ضائع کر دئیے ہیں ،آج یہ بابے بھی کنٹینر وغیرہ پر کھڑے ہو کرایک تاریخ رقم کر رہے ہیں جس کا بہرحال ہمیں کل افسوس ہوگا ،لیکن اب ان کے چراغ گل سمجھیں ،اپنے اندر سے ہی روشنی پیدا کر کے ہم چھوٹے موٹے صحافیوں کو پاکستان میں صحافتی اقدار کوبحال کرنا ہو گا ،اب شاید ناصر زیدی دوبارہ پیدا نہ ہو لیکن سلیم شہزاد اور راجہ اسد حمید جیسے لوگ ہماری صفوں میں اب بھی موجود ہیں ۔باقی صحافی باباؤں کو چاہیے کہ نواز شریف ،عمران خان اور طاہر القادری اور ان جیسے اور لوگوں کے ہاں پبلک ریلیشن آفیسرز (ترجمان)کی ملازمتوں کے لیے ابھی سے درخواستیں جمع کرانا شروع کر دیں ،اور صحافت پر رحم کریں ۔